کالم و مضامین

نئی پاکستانی منتخب حکومت

خصوصی مضمون ۔۔۔ سید حسن عباس

سال 2016 کے انتخابات نے، پاکستانی قوم کو ایک نئی امید دلادی اور تبدیلی کی علامت کے طور پر ایک نئی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصا ف نے ملک میں اقتدار سنبھال لیا ۔
جی ہاں وزیر اعظم عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کی شکل میں، جنہوں نے اگست 2016 کا الیکشن جیتا ،مجموعی طور پر پاکستانی قوم نے اس تبدیلی پر خوشی منائی کہ چلو پیپلز پارٹی اور پاکستان لیگ (ن)کی گندی سیاست سے جان چھوٹی جائے گی ، ملک میںآزادی اظہار اور مذہب کو یقینی بنایا جائے گا، فرقہ واریت کی آڑ میں پر تشدد کاروائیوں کرنے والوں کو لگام ڈالی جائے گی ،مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے گا اور کچھ اچھا ہونے کی امید نے عوام کو تازہ دم کر دیا۔
نئی حکومت کے اقتدار میں آتے ہی الیکٹرونک میڈیا نے اس کو درپیش ممکنہ دشواریوں اور تکلیفوں کو اجاگر کرنا شروع کر دیا جس میں مالی و اقتصادی مشکلات ،انڈیا کے ساتھ خراب ہوتے
تعلقات ، پولیس اصلاحات ،وزیراعظم عمران خان کے وہ دبنگ دعوے جس میں ان کا سب سے پہلا اور بڑا دعوی تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے مدد نہیں مانگیں گے اور عمران خان کا یہ بھی دعویٰ کہ وہ گذشتہ تمام طاقتور افراد بشمول سابق حکمرانوں کے، جن کی ملی بھگت سے، اس ملک کو لوٹا اور دہائیوں، اس ملک پر حکمرانی کی ، ان سب کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے ، ان کا کڑا احتساب کریں گے ۔ ان کی لوٹی ہوئی دولت بھی واپس ،ملک میں لائیں گے۔
حکمرانی میں آنے کے بعد یہ بات تو واضح ہے کہ عمران خان کی نیت صاف اور اچھی ہے مگر اس گندگی کو جو کہ پانچ چھ دہائیوں سے جاری ہے، صاف کرنا اتنا آسان نہیں ہے ،جتنا کے اس کو صاف کرنے کا دعوی کیا گیا تھا ۔جہاں تک سوال تھا کہ کشکول نہ اٹھانے کا ،وہ بھی اٹھانا پڑا اور آئی ایم ایف سے مشکل شرائط پر قرضہ بھی لینا پڑا جس سے عوام کو مایوسی ہوئی اور سیاسی مخالفین کو پوائنٹ سکور کرنے میں مدد ملی ۔
اسی طرح پہلے مر حلے میں” منی لانڈرنگ “کے کیس کو ”اوپن“کرنا تھا ،میاں نواز شریف کو انصاف کے کٹہرے میں لانا تھا لیکن صاف ظاہر ہے ،اس میں بھی کتنا وقت لگا اور میاں صاحب نے بھی آخر کار بیماری کا بہانہ بنا کر ملک سے راہ فرار اختیار کر لی اور ان کے واپس آنے کی امید بھی نہیں ہے ۔منتخب حکومت اپنے پہلے دورانیہ میں ہی اپنے کئے گئے وعدوں پر پورا نہیں اتری۔
یوں موجودہ حکمران ، حکومت میں آنے سے پہلے جس لوٹی ہوئی رقم کو واپس لانے کا دعوی کرتے تھے ،وہ پورا ہوتا نظر نہیں آتا ۔ان پیسوں کو واپس لانا ناممکن لگتا ہے جو کہ غیر ملکی اکاو¿نٹ میں غلط طریقوں سے بھیجی گئی ۔مہنگائی کا جن ہے کہ قابو میں آنے والا نہیں۔ غریب عوام کھانے پینے کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہو رہے ہیں ۔وزیراعظم نے جو ہمدردیاں انتخاب سے پہلے حاصل کی تھی وہ اب موجود نہیں ہے کیونکہ لوگ دیکھ سکتے ہیں کہ وعدے پورے نہیں ہو رہے ہیں۔مزید یہ کہ دو بڑی سیاسی جماعتیں جو کہ ماضی میں ایک دوسرے کی حریف تھی، اب باہمی مفادات کی وجہ سے ،ایک دوسرے کے مزید قریب آ گئی ہیں ۔ ان کے مشترکہ ایجنڈے میں موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت کو ختم کرنا اور پھر حکمرانی کے مزے لوٹنا شامل ہے ۔
ان تمام مسائل کے علاوہ ہے،فرقہ واریت ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ۔اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔خاص طور پر وہ تماشا جو 11، 12 اور 13 ستمبر 2020 کو لگاتار ہوا ۔ اس دوران، عظمت ِ صحابہ کے نعرے کے تحت ، تین بڑی ریلیاں نکالی گئیں ۔
اس مارچ کو منعقد کرنے میں سنی مذہبی تنظیمیں جمعیت علماءاسلام ، تحریک لبیک پارٹی، سپاہ صحابہ پاکستان، سمیت ممنوعہ تنظیمیں شامل تھیں ۔یہ تمام تنظیمیں اقلیتوں سے نفرت اور توہین رسالت ﷺکے قوانین کے غلط استعمال کے لئے مشہور ہیں۔ ان شیعہ مخالف مظاہروں نے پورے کراچی کو ہلا کر رکھ دیا اور یہ پورا واقعہ گوگل(google) پر ایک کلک (click)کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے ۔
ان مظاہروں، جن کا اہتمام اہل سنت کے علماءکرام نے کیا تھا، کے بارے میں شیعہ کمیونٹی کو ہمیشہ شدید تحفظات رہتے ہیں۔ اسی قسم کے مظاہروں کو ایک ”پریشر گروپ“ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ، یہ لوگ محرم کے جلوسوں اور شیعوں کی دیگر رسومات اور رواجوں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔حالانکہ پاکستانی قانون کے مطابق تمام اقلیتوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔
پنجاب اسمبلی میں ایک متنازع بل” تحفظ اسلام بل “کے نام سے منظور کیا جا چکا ہے۔ اس کے ذریعے زیارت عاشورہ (شیعہ حضرات کی ایک مقبول زیارت (دعا) پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
اس بات کا منظور ہونا اہل تشیع اور دیگر اقلیتوں کے لئے مذہب کی آزادی پر براہ راست حملہ ہے۔قیاس آرائیاں ، اس وقت بڑھ گئی کہ جب کچھ دیگر ممنوعہ عناصر یعنی کہ تحریک طالبان پنجاب ،لشکر جھنگوی کی عسکریت پسند تنظیم نے بھی ،شیعہ مخالف بیانیہ کی حمایت کرنے کے لئے شیعہ شخصیات کے ناموں کی فہرست جاری کی ہے، جس میں شامل، تمام لوگوں کو واجب القتل قرار دیا گیا ہے۔
اس تحریک کو مزید پر تشدد بنانے کے لیے یہ بھی اعلان کیا کہ شیعہ حامی رہنماو¿ں کے سر قلم کرنے سے پہلے ،ان پر تیزاب پھینکا جائے کیونکہ شیعہ بدترین اور کافر ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ اور کس ملک کا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے؟
اسی طرح بعض مسیحی اقلیتی افراد پر بھی توہین رسالتﷺ کے مقدمات کی مثالیں موجود ہیں جن کی کوئی بنیاد ثابت نہیں ہوئی ۔اس سلسلے میں ایک حالیہ واقعہ،ایک خاتون آسیہ کا ہے کہ کس طرح عدالت نے اس کو لوگوں کے ممکنہ تشدد سے بچانے کے لیے ،اس کو جیل میں رکھااور بعد میں بیرون ملک روانہ کیا گیا۔
بات یہیں پرختم نہیںہوتی بلکہ مذہبی انتہا پسندی ،پاکستان کو دنیا بھر میں بد نام کر رہی ہے ۔اس لعنت سے ملک و قوم کو نجات دلانے میں وزیر اعظم عمران خان کو اپنے وعدے اور انتخابی منشور کو پورا کرنا ہوگا ، انہیں ہر ایک کے تحفظ کو قطعی نظر کہ اس کا عقیدہ کیا ہے ، یقینی بنانا ہوگا۔
مرحوم مولانا خادم حسین رضوی، بانی تحریک لبیک پاکستان جیسی ممتاز شخصیات، جنہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی تعلیمات کی پرواہ نہیں کی ، رواداری نہیں دکھائی اور حضرت سیدہ فاطمہ الزہراء(س) کے بارے قابل اعتراض باتیں کیں ۔اس طرح کے لوگ جب کچھ غلط بولتے ہیں تو ان کے پیروں کا، ایک سیلاب امڈ آتاہے جو کہ ان کی ہاں میں ہاں ملا تاہے اور اقلیتوں اور مخالف عقیدہ والوں کا جینا دشوار کر دیتا ہے۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اس اس مسئلہ کو حل کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ یہ مذکورہ افراد کا قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا شروع کر دیتے ہیں اور ملک انارکی کی طرف بڑھ جاتا ہے ۔
ہر دوسرا بندہ خود کو پیغمبر اسلام ﷺکا داعی بنا کر حق اور ناحق پر فیصلہ کرتا نظر آتا ہے اور اپنے تئیں سزا دینا شروع کر دیتا ہے۔پنجاب کے سابق گورنر مرحوم سلمان تاثیر ، اس معاملے کا سب سے پہلے شکار ہوئے تھے ۔ ان کے قاتلوں کی سرزنش نہیں کی جاتی بلکہ ہیرو بنایا جاتا ہے اور ان کو پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں۔
اسی سلسلے کی ایک تازہ کڑی یہ ہے کہ گذشتہ ہفتے ایک سیکورٹی گارڈ نے، فائرنگ کرکے، سرگودھا نیشنل بینک برانچ مینیجر کو گولی مار دی اور ہلاک کردیا ۔
آخر میں موجودہ آرمی چیف اور عمران خان کے خلاف اکتوبر 2018 میں ،ٹی ایل پی کی قیادت کا مشہور فتوی کون بھلا سکتا ہے؟
المختصر ملک کے بنیادی ستون یعنی کہ احتساب، معیشت اور مذہبی آزادی اور استحکام کو ،ایک مشکل وقت کا سامنا ہے ہے۔حکومت کو اپنی ذمہ داریاں پورا کرنا ہوں گی ، کسی بھی قسم کی سیاسی یا غیر سیاسی ، فقہی مصلحتوں کی پرواہ کئے بغیر ، پاکستان کے آئین میں لکھے گئے حقوق کے تحت ہر شہری کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا۔ کسی کو بھی اپنے مخصوص عقیدے یا نظرئیہ کی وجہ سے ملک کو ، عوام کو محدود یا ملک گیر سطح پر یرغمال بنانے اور اپنی اجارہ داری مسلط کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئیے ۔
عمران خان اور پی ٹی آئی جو مثبت تبدیلی کی علامت بن کر ابھری تھی مگر عوام کی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکیں ۔ اس حکومت کے مزید پانچ سال کی بقاء،کا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(نوٹ: اس مضمون کے مندرجات ، مضمون نویس کی ذاتی آراءو خیالات ہیں ، ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Syed Hassan Abbas, New York

Related Articles

Back to top button