کالم و مضامینپاکستان

پاکستان سے غیر قانونی تارکین وطن کا انخلاء

خصوصی مضمون ۔۔۔محمد مہدی ( لاہور)

ریاست اور سیاست ،غیر مستقل مزاجی یا جذباتیت سے نہیں چل سکتی ہیں

ریاستی امور میں مستقل مزاجی ، تحمل اور معاملہ فہمی کامیابی کی حقیقی معنوں میں کلید ہے اور غیر مستقل مزاجی ، جذباتی روئیہ یا صرف الفاظ سے کھیلنا جیسے سائفر سے کھیلا گیا ہر ناکامی کا واضح طور پر راستہ ہے۔ اب جس کا جی چاہے کامیابی کا سفر اختیار کرے اور جو جی چاہے ناکامی کو مقدر قرار دے۔ یہ صرف سیاست دانوں تک محدود فلسفہ نہیں ہے بلکہ ریاستی معاملات میں ہر صاحب اختیار پر اس کا اطلاق ہوتا ہے اور جب کبھی بھی اس حوالے سے کوئی کجی کوئی خامی رہ جاتی ہے تو اس کے ذمہ دار اس وقت کے تمام ارباب حل و عقد ہوتے ہیں۔
تمہیدی گفتگو کا شان نزول یہ ہے کہ چند روز قبل صبح ناشتہ بھی ابھی تک نہیں کیا تھا کہ ایک مغربی سفارت کار دوست کی کال آ گئی ۔وہ کچھ عرصہ قبل تک وطن عزیز میں تعینات تھے اور اب اپنے ملک کے دفتر خارجہ میں جنوبی ایشیا کے معاملات سے منسلک ہے۔ جب حال ہی میں پاکستان نے یہ بالکل درست فیصلہ کیا کہ غیر قانونی تارکین وطن کو ان کے ممالک واپس بھیجا جائے اور لا محالہ ان میں ایک بہت بڑی اکثریت افغان غیر قانونی مقیم افراد کی ہے تو اس پر لے دے شروع ہو گئی تھی۔
پاکستان کی جانب سے یہ مو¿قف اختیار کیا گیا کہ پاکستان میں دہشت گردی جیسے ناسور کے بار بار پنپنے کی بنیادی وجہ ان افغان شہریوں کا پاکستان میں غیر قانونی قیام ہیں۔ اس لئے پاکستان مجبور ہے کہ ان کو ان کے ملک واپس بھیجا جائے تو اس وقت بھی میرے ان دوست کی کال آئی تھی اس ہی اقدام کے حوالے سے گفتگو ہوتی رہی اور میں نے ان کو کہا تھا کہ افغانستان کی جانب سے حد درجہ غیر ذمہ داری کا روئیہ اختیار کرنے کے بعد پاکستان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں رہ گیا تھا کہ وہ اس اقدام کے علاوہ کوئی دوسرا لائحہ عمل کو تیار کرتا۔ اور جو آپ کے ملک میں ان دہشت پسند عناصر کے نظریاتی حامی ہیں جو موقع ملنے پر ان کے ہی شانہ بشانہ مسلح بھی ہوجاتے ہیں ان کے حوالے سے کیا پالیسی ہوگی ؟ کیا ان کو ان کی سرگرمیوں سے روکا جائے گا ؟ کیا آنے والے عام انتخابات میں ان کے حصہ لینے پر کوئی قدغن ہوگی ؟ یا یہ حسب سابق دندناتے پھریں گے کہ مجھے کوئی کام بتاو¿ میں کیا کروں میں کس کو کھاو¿ں ؟
ان تمام تحفظات پر یہ ان پر واضح کیا تھا کہ پاکستان کی مقتدرہ اور سیاسی قیادت اس حوالے سے مکمل طور پر یکسو ہیں کہ اب پاکستان کو دہشت گردی کے ہر خطرے سے آزاد کروانا ہے اور اس میں اس حوالے سے کوئی دوہرا معیار اختیار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ کسی کو شکار کر لیا جائے اور کسی کو شکار کرنے کا کھلا موقع فراہم کردیا جائے۔ یہ طے شدہ حکمت عملی ہے ایسٹیبلشمنٹ کے علاوہ متوقع حکمران جماعت کے قائد نواز شریف اور شہباز شریف دہشت گردی کے خلاف اپنے ادوار حکومت میں اس حد تک متحرک رہے تھے کہ ان عناصر کی وجہ سے وہ اور ان کا خاندان دہشت گردی کے شدید خطرات کا سامنا کرتا رہا جبکہ محترمہ بینظیر بھٹو تو ان کی سفاکیت کا نشانہ بن گئی۔ اس لئے ملک میں کسی سیاسی تبدیلی کے باوجود بھی اس حوالے سے کسی بھی نرمی کا سرے سے کوئی امکان نہیں ہے۔ اس پر یقین فقرے پر میری گفتگو کا اختتام ہو گیا تھا ۔
اب جو دوبارہ ان کو کال آئی تو رسمی علیک سلیک کے بعد بولے کے آپ سے کی گئی کچھ عرصہ قبل کی گفتگو کے تناظر میں آپ کو چند تصاویر جو آپ کے میڈیا کی بھی ” زینت ” بنی ارسال کر رہا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان عناصر کی گذشتہ کچھ عرصے کی عوامی گفتگو کے ویڈیو کلپ بھی ساتھ ہی ہیں ذرا دیکھ لیجئے گا۔
میسج دیکھا تو مختلف ایسے اشخاص سیاسی جماعتوں میں شامل ہونے کی تصاویر تھی کہ جن کے متعلق سب جانتے ہیں کہ وہ دہشت گرد تنظیموں سے وابستہ رہے اور اب بھی ان کے حقیقی رہبران وہ ہی لوگ ہیں۔ انہی لوگوں کلپس سنی تو وہ سب کچھ اس میں شامل تھا جس کا عشر عشیر بھی اب قابل برداشت نہیں ہونا چاہئے۔ ملک کی اعلی ترین سیاسی قیادت کو اس کا نوٹس لینا چاہئے کہ کہیں ایک دو نشستوں کے حصول کیلئے اپنی اور مملکت کی ساکھ ہی داو¿ پر نہ لگ جائے اور دنیا یہ محسوس کرے کہ غیر قانونی افغان شہریوں کی وطن واپسی کی پالیسی بھی بس ایک دکھاوا ہی تھا۔ نو مئی کو جو ہوا اس کی تکلیف حد درجہ ہے مگر ان افراد نے نو مئی سے برسوں قبل جی ایچ کیو پر حملہ سے لیکر فوجی ، پولیس ، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں سمیت ان گنت عام شہریوں کو شہید کردیا اس کی تکلیف کیوں محسوس نہیں کی جا رہی ہے ؟
ریاست اور سیاست ،غیر مستقل مزاجی یا جذباتیت سے نہیں چل سکتی ہیں۔ پیر ضیاءالحق نقشبندی نے سہیل وڑائچ کی زندگی پر تیرہ سال کی عرق ریزی کے بعد ” سہیل وڑائچ کہانی ” کتاب قلم بند کی۔ اس کتاب میں جذباتیت کے حوالے سے سہیل وڑائچ نے حضرت قائد اعظم رح کا ایک واقعہ نقل کیا ہے ” ایک دفعہ قائد اعظم ر ح سے مولانا بھاشانی کی ملاقات ہوئی . اس وقت مولانا بھاشانی جوان تھے اور قائد اعظم ر ح بوڑھے آدمی تھے۔ اس وقت وہاں مسٹر اصفہانی بھی موجود تھے ، اس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جب مولانا بھاشانی مل کر گئے تو میں نے قائد اعظم (ر ح) سے پوچھا کہ اس بندے میں بڑی انرجی ہے ، ہمیں اسے مسلم لیگ کے لئے استعمال کرنا چاہئے لیکن قائد اعظم (ر ح )نے کہا کہ نہیں یہ ایک جذباتی انسان ہے ، سیاست کے لئے یہ لوگ ٹھیک نہیں ” پھر تاریخ نے دیکھا کہ اسی مولانا بھاشانی کی سیمابی طبیعت نے سیاست کو کیسے نقصان پہنچا دیا۔ اگر ہم نے اب آئندہ انتخابات میں دہشت گرد ذہنیت رکھنے والے عناصر کو برداشت کیا ، سہولت کاری کی تو ہمارا شمار بھی مولانا بھاشانی کی مانند ہی تاریخ کرے گی مگر ہمارا مسئلہ جزباتیت سے زیادہ عاقبت نا اندیشی ہوگا۔

Related Articles

Back to top button