کالم و مضامین

مولویوں کی بدنامی

تحریر :- ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

قارئین مولوی معاشرے کا وہ پسا ہوا طبقہ ہے جسکا استحصال برصغیر اور بالاخص پاکستانیوں میں فرض منصبی سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ مجھے اب سمجھ میں آیا کہ میں مولوی بننے سے کیوں گریزاں تھا؟ اور جس دن میں مولوی بنا اس دن میری والدہ کو افسوس کرنے کیلئے رشتہ دار عورتیں کیوں آئی تھیں ؟ اسلئے کہ پاکستان میں مولوی کو کمی یا شودر سے کم نہیں سمجھا جاتا ہے۔ آپ کسی اعلی خاندان سے کیوں نہ ہوں آپکو مسلی موچی یا مراثی کہہ کر پکارا جائیگا۔
مولوی کو ماں بہن کی گالی ہماری قوم کے اکثر افراد اپنا پیدائشی حق سمجھ کر دیتے ہیں۔ مولوی پر الزام لگ جائے تو اسکی کوئی نہیں سنتا سارے ایکا کرکے اسکے خلاف نبرد آزما ہو جاتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں لاہور کے ایک مفتی کی ویڈیو لیک ہوئی ہے ۔ ایسے مفتیوں کو علی الاعلان حدود جاری کر کے ڈھیر کر دینا چاہئے ۔ بلکہ انہیں مفتی بننا ہی نہیں چاہئے ۔ بن بھی جائیں تو ایک نظام ہونا چاہیے جو سکی کردار سازی کو مانیٹر کرے ۔ بشرط ثبوت جرم ! سزا نہ دینے کے سبب یہ حرکات ہو رہی ہیں ۔ مگر ہمارے کپتان نے شریعت کے ساتھ بھی میچ ڈال رکھا ہے یہ بلکہ مذاق بنا رکھا ہے کبھی کہتے ہیں ایسوں کو نامرد بنا دینگے کبھی کچھ یہ ! یا اسکے مماثل جرائم کرائم اور شعبہ ہائے حیات میں بھی ہوتے ہیں مگر انکی نہ ویڈیوز لیک ہوتی ہیں نہ ہی مقدمے درج ہوتے ہیں۔نہ میڈیا حرکت میں آتا ہے۔اگر کسی ایک مولوی کی کوئی حرکت سامنے آتی ہے تو اسے نہ فقط اچھالا جاتاہے ۔بلکہ ہر مولوی کو ایسا مشہور کیا جاتا ہے ۔ ایک فرقے کے بعد دوسرے فرقہ کو بدنام کرنے کیلئےفرضئ ایف آئی آر لائی جاتی ہے اور مسترد مقدمہ کے سات واقعات گھڑے جاتے ہیں جبکہ مارچ میں کورٹ اس کیس کو خارج کر چکی ہے اور جون میں اس جعلی کیس کو پھر سے سوشل میڈیا پر اچھالا جاتا ہے ۔ تاکہ فرقوں کی بدنامی میں توازن ہو سکے ۔ یزیدی فکر کے لوگوں میں ایسی جنسی بے راہروی کی حرکتیں عام رہی ہیں۔ مگر سچے حسینی مسلمانوں میں بشمول شیعہ و سنی ایسی حرکات نہ تھیں اور نہ ہونگی۔ یزیدیوں کے جرائم پر پردہ ڈالنے کیلئےشریفوں کو بدنام کیا جاتا ہے ۔ ایسے جرائم دیگر ممالک میں بھی ہوتے ہیں مگر ایسے ا چھالے نہیں جاتے ۔ جیسے صاحبان بہادر پاکستانی پدر مادر آزاد معاشرے میں گند اچھال رہے ہیں ۔ قوم لوط پر گندھک کے آسمانی پتھر برسے۔ وہ مر گئے تباہ کر دیے گئے ۔ اسکی سزا موت کی سزا ہے قرآن میں سزا معین ہے۔ مگر ہمارے پاکستان میں کسی مجرم کو سزا تو ملتی ہی نہیں ہے۔ جو ریپ کمے سینکڑوں واقعات ہوئے ان مجرموں کو کب سزا دی گئی ؟ صبح شام سوشل میڈیا پر جو جنسی تشدد اور بے راہروی کے نتیجہ میں قتل ہوتے ہیں کتنے مجرموں کو سزا ملی ہے ؟ ایک سوال اٹھا ہے کہ جن شیعہ عالم کی عزت خاک میں ملائی گئی اسکا مداوا کیسے ہوگا؟ مجرم کا جرم چھپانا اتنا ہی جرم ہے جتنا بے گناہ کو مجرم بنانا ۔ہمارے ملک میں جنگل کا قانون ہے میں پیشینگوئی کر رہا ہوں کہ جس مولوی کو پکڑا گیا ہے اسے جلد رہا کر دیا جائیگا ۔ اسلئے کہ ایجینسیوں کو مولویوں سے بدلہ لینا تھا وہ لے لیا ۔ ہم جنس پرستی ہو یا ایڈلٹری اسکی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ تاہم اس گند کو اچھالنا اور زیادہ مذمت کے قابل ہے ۔ اس تشہیر کا ہدف یہ تھا کہ لوگ علماء سے نفرت کرینگے تاکہ نقصان قوم کو ہو۔ اور تربیت قوم کرنے والے مربیوں کو اتنا بدنام کردو کہ گھروں میں قرآن و حدیث کی بجائے انڈین گانے ۔ فلمیں اور بے راہروی کی موویز چلیں ۔ اگر کوئی ڈاکٹر آپریشن غلط کردے تو علاج انجینئر سے نہیں کرایا جاتا ۔ اور کوئی آرکیٹیکٹ نقشہ غلط بنادے تو عمارت سی پی اے سے نہیں بنوائی جاتی ۔ عالم اگر نیک ہو تو کار انبیاء کرتا ہے برا ہو تو بلعم باعور طرز کا کتا یا بہکے یہودیوں کی مانند گدھا ہوتا ہے ۔ مگر بدکار ملا بہت ہی کم ہیں گیہوں کی ساتھ گھن کو نہ پیسے اور سوشل میڈیا پر مولوی کے نام کو بدنام نہ کیجئے آپ کا بچے کے کان میں اذان سے لیکر تدفین میت تک مولوی کے بغیر گزارا نہیں ہے ۔ نکاح و طلاق ہو یا جنازہ و جمعہ جماعات ، رمضان سروسز ہوں یا محرم وصفر کی مجالس، اعیاد ہوں یا تعزیتی جلسے ، تعلیم قرآن ہو یا فاتحہ و درود ، خوشی غمی ہو یا تبریک و تعزیت ہم مولوی کے بغیر گزارا نہیں کرسکتے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک زمانہ میں ایسے سکینڈلز پادریوں اور نندوں کے بنتے تھے مگر عیسائی سمجھ گئے کہ اس سے انکے مذہب کی توہین ہو رہی ہے ۔ تو اب یہ سلسلہ رک گیا ہے تاہم مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستانیوں میں یہ اس وقت بام عروج ہر ہے۔ میں ساری زندگی کردار کی بابت بہت سخت سخت رہا ہوں اور رہونگا تاہم تشییع فاحشہ اور تہمت کے اتنا ہی خلاف ہوں جتنا ان جنسی جرائم کے خلاف ۔ مجرموں کو سزا دی جائے اور دادا گیروں کو یہ حق نہ دیا جائے کہ وہ شرفاء پر تہمیتئں لگاکر انہیں بد نام کریں

Related Articles

Back to top button