پاکستان

عمران خان کو کون نکال سکتا ہے؟اور عمران خان کس کو نکال سکتا ہے ؟

اقتدار کے ایوانوں کی اور اپوزیشن کی لانگ مارچ کی سیاست کے اونٹ کس کروٹ بیٹھتے ہیں ، ان تمام سوالات کے جوابات وقت کے ساتھ ساتھ ہی ملیں گے

اسلام آباد (احسن ظہیر ) اسلام آباد کی سیاست ایک طرف غیر یقینی کا شکار ہے اور دوسری جانب وفاقی دارالحکومت میں درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے ۔اسی صورتحال میں وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کہ اگر انہیں نکالا گیا تو وہ زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے، نے کئی سوالات کھڑے کر دئیے ہیں ۔ سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے کس کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اگر انہیں نکالا تو وہ زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے ؟
بیشتر سیاسی پنڈتوں کے مطابق کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اشاروں کنائیوں میں ایسٹبلشمنٹ کو پیغام دیا ہے لیکن وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد ، سیاسی پنڈتوں کے اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے ۔ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کا اشارہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ شیخ رشید یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت کہیں جانے والے نہیں اور وہ اپنی معیاد پوری کریں گے اور آئندہ بھی حکومت بنائیں گے ۔
یاد رہے کہ جب سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف ، اقتدارسے الگ ہوئے تو انہوں نے اپنے پہلے خطاب میں سوال اٹھایا تھا کہ ”مجھے کیوں نکالا؟“ اس سوال کا جواب میا ں نواز شریف مسلسل گذشتہ تین سے زائد سالوں سے مختلف پہلوو¿ں سے دینے کی کوشش کررہے ہیں ۔
جہاں تک عمران خان کے مذکورہ بیان کے بعد پیدا ہونے والے اس سوال کا تعلق ہے کہ ”اگر انہیں نکالا تو “ تو سوال یہ پیدا ہوتے ہیں کہ وہ کون ہو سکتے ہیں کہ جو عمران خان کو نکال سکتے ہیں ؟ سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اس سوال کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ اپوزیشن والے ، ایک تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو اقتدار سے الگ کر سکتے ہیں بشرطیکہ وہ اکٹھے ہو جائیں اور عمران خان کے بعض اتحادی بھی ان کا ساتھ دیں لیکن یہ اگر مگر کا کھیل ہے ۔ اس کھیل میں سیاست کی بساط کے مہرے جب تک کوئی چالیں واضح طور پر نہیں چلتے ، بات ”اگر، مگر“ کے گرد ہی گھومتی رہے گی ۔
سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ آئندہ دو ہفتوں میں اگر مگر کی صورتحال واضح ہونے کا امکان ہے ۔
سیاسی حلقوں کی جانب سے دوسرا اہم سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا ایسٹبلشمنٹ عمران خان کو نکال سکتی ہے تو اس بارے میں ان حلقوں کا کہنا ہے کہ ایسٹبلشمنٹ کا نیوٹرل ہوجانا ہے ، حکومتی سیٹ اپ کے لئے حکومت گرانے کی کسی کوشش کے موقع پر بڑے ”اپ سیٹ“ کا سبب بن سکتا ہے ۔
عمران خان ، ایک اتحادی حکومت کے وزیر اعظم ہے اور یہ حکومت اسی وقت تک قائم رہے گی کہ جب تک نمبر گیم عمران خان کے کنٹرول میں ہے ۔ اس تما م تر معاملے میں حکومت کی اہم اتحادی جماعتیں بالخصوص مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم بظاہر تو عمران خان کے ساتھ ہیں لیکن کیا گارنٹی ہے کہ اگر نوبت”اگر مجھے نکالا !“ تک آتی ہے تو یہ اتحادی جماعتیں کہاں اور کس کے ساتھ کھڑی ہوں گی ؟
اقتدار کے ایوانوں کی اور اپوزیشن کی لانگ مارچ کی سیاست کے اونٹ کس کروٹ بیٹھتے ہیں ، ان تمام سوالات کے جوابات وقت کے ساتھ ساتھ ہی ملیں گے ۔

Related Articles

Back to top button