بین الاقوامی

کون بنے گا مئیر نیویارک ؟

مسلم امریکن کمیونٹی کی ایک اہم و نمائندہ تنظیم ”ایم گیج “، کا کہنا ہے کہ سال 2017میں ہونیوالے نیویارک سٹی کے مئیر کے الیکشن ساڑھے چار لاکھ ووٹس نے فیصلہ کن کردار ادا کیا اور اس سال ہونیوالے الیکشن میں یہی حیثیت مسلم امریکن کمیونٹی کے رجسٹرڈ ساڑھے تین لاکھ ووٹس کو حاصل ہو سکتی ہے

نیویارک کی مسلم امریکن کمیونٹی کی 10اہم و نمائندوں تنظیموں کے زیر اہتمام 22جون کو ہونیوالے مئیر ل پرائمری الیکشن میں چھ اہم ڈیموکریٹک امیدواروں کا خصوصی انتخابی فورم سے خطاب

نیویارک (محسن ظہیر سے ) نیویارک سٹی کے آئندہ مئیر کےلئے 22جون کو ہونے والے مئیر کے پرائمری الیکشن میں سامنے آنے والے چھ اہم ڈیموکریٹک امیدواروں نے نیویارک کی مسلم امریکن کمیونٹی کو یقین دلایا ہے کہ وہ اگر مئیر منتخب ہو گئے تو امتیاز ی سلوک ، نفرت انگیز جرائم ، پبلک سکولوں میں حلال فوڈ ، افورڈیبل ہاو¿سنگ ،روز گارکے مواقع سے اہم مسائل کے حل میں خصوصی کردار ادا کریں گے اور کوورونا وبا کی وجہ سے مشکلات کا شکار نیویارک سٹی کی معیشت کی بحالی کے عمل میں دیگر کمیونٹیز کے ساتھ ساتھ مسلم امریکن کمیونٹی کو بھی شانہ بشانہ ساتھ لے کر چلیں گے ۔ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے مئیر کے اہم امیدواروں ایرک ایڈمز، اینڈریو یانگ ، سکاٹ سٹنگر، رے میکگوائر، شان ڈانووان ، کیتھرائن گارسیا نے مذکورہ یقین دہانیاں ، مسلم امریکن کمیونٹی کی 10اہم و نمائندہ تنظیموں کے زیر اہتمام ”زوم “ پر منعقدہ ایک خصوصی فورم سے خطاب کے دوران کیا ۔ اس فورم میں ماڈریٹر کے فرائض مسلم امریکن کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے امریکہ کے ممتاز صحافیوں آمنہ نواز اور ڈین عبید اللہ نے انجام دئیے ۔ انہوں نے فورم میں مسلم امریکن سمیت دیگر کمیونٹیز کے اہم مسائل اور نیویارک سٹی کے مئیر سے متعلقہ تمام اہم معاملات کے بارے میں سوالات اٹھائے ۔
مسلم امریکن کمیونٹی جس میں ماضی میں
مسلم امریکن کمیونٹی کی ایک اہم و نمائندہ تنظیم ”ایم گیج ۔Emgage) جس نے مذکورہ فورم کے انعقاد میں کلیدی کردار ادا کیا ، کا کہنا ہے کہ سال 2017میں ہونیوالے نیویارک سٹی کے مئیر کے الیکشن ساڑھے چار لاکھ ووٹس نے فیصلہ کن کردار ادا کیا اور اس سال ہونیوالے الیکشن میں یہی حیثیت مسلم امریکن کمیونٹی کے رجسٹرڈ ساڑھے تین لاکھ ووٹس کو حاصل ہو سکتی ہے ، اگر مسلم کمیونٹی اپنے حق رائے دہی کو یقینی بنائے اور انتخابی عمل میں بھرپور دلچسپی کا مظاہر ہ کرے ۔
ایرک ایڈمزکا کہنا تھا کہ میں مسلم امریکن کمیونٹی کا کوئی نیا نہیں بلکہ ایک دیرینہ دوست ہوں ۔میں سمجھتا ہوں کہ مئیر کے الیکشن کے موقع پر یہ بحث نہیں ہونی چاہئیے کہ ہم منتخب ہو کر کیا کریں گے ؟بلکہ بحث اس بات پر ہونی چاہئیے کہ اسلامو فوبیا سمیت مسلم امریکن کمیونٹی کو چیلنجز درپیش تھے ، تو اس وقت نیویارک سٹی کے مئیرل امیدواران کہاں تھے ؟امیدواروں سے یہ بھی پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ اس وقت کہا ں تھے کہ جب پولیس ڈیپارٹمنٹ ، مساجد سمیت دیگر کمیونٹی مقامات جاسوسی کررہا تھا؟اس وقت میں کھڑا ہوا اور کمشنر کیلی سے کہا کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے ۔میں امیدواروں سے پوچھتا ہوں کہ وہ اس وقت کہاں تھے کہ جب مسلم کمیونٹی کی خواتین پر حجاب پہننے کی وجہ سے حملے ہوئے ؟اس وقت میں ان کے ساتھ جا کر کھڑا ہوا تھا۔نائن الیون کے بعد جب مسلم کمیونٹی کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی اور جب صدر ٹرمپ کی جانب سے مسلم ممالک پر سفری پابندیاں عائد کی گئیں ، میں اس وقت بھی مسلم کمیونٹی کے شانہ بشانہ کھڑا ہوا تھا۔میں نے مسلم امریکن کمیونٹی کو اس وقت دریافت نہیں کیا کہ جب میں مئیر کے الیکشن کے لئے سامنے آیا بلکہ میں اس کمیونٹی کو خود کو بھائی سمجھتا ہوں اور کمیونٹی کو بخوبی جانتا ہوں ۔
شان ڈانووان کا کہنا تھا کہ میں امیگرنٹس کا پوتا اور بیٹا ہوں ۔میرے دادا بہتر مستقل کی تلاش کے لئے برطانیہ سے ساو¿تھ امریکہ سے ہوتے ہوئے نیویارک پہنچے ۔میں نے نیویارک سٹی کی کرائسز کے دوران ایک پبلک سرونٹ کی حیثیت سے خدمت کی ۔ میں نے نیویارکرز کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں مسائل میں اضافہ اور بڑھتے ہوئے چیلنجز دیکھے ہیں ۔میں نے ہوم لیس شیلٹرز میں ایک بچے کی حیثیت سے رضا کارانہ خدمات انجام دینے سے اپنی خدمات کا آغاز کیا ۔میں گذشتہ تیس سالوں سے اپنی خدمات جاری رکھے ہوئے ہوں ،میں نے نائن الیون کرائسز میں کام کیا ، ہاو¿سنگ کمشنر کے طور پر سٹی کو’ری بلڈ‘ کرنے میں اپنا خدمات انجام دیں ،سمندری طوفان سینڈی میں نظام زندگی کی بحالی میں کام کیا ، ایبولا اور زیکا وبا کے پھیلاو¿ کے دوران بھی ڈاکٹر فاو¿چی سمیت قومی قیادت کے ساتھ مل کر کام کیا ۔لہٰذا میں جانتا ہوں کہ بحرانوں کے دوران کیسے کام کرنا ہے ۔ مئیر کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے میں بھرپور تجربے کا حامل ہوں اور تیاری سے ہوں ۔
معاشی بحران کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ایرک ایڈمز نے کہا کہ ہمیں ’سٹیمولس پیکج “ کے فنڈز کے صحیح استعمال کو یقینی بنانا ہے۔ہمیں گن وائلنس کے چیلنج سے نبرد آزما ہونا ہے۔میں انٹی کرائم یونٹ کی از سر نو تنظیم سازی کروں گا، پبلک سیفٹی کو یقینی بنانا ہوگا۔ہمیں سمال بزنس اوونرز کو سپورٹ دینا ہوگی ۔
روز گار سمیت مسلم کمیونٹی کو درپیش مسائل کے بارے ایک سوال کے جواب میں شان ڈانو وان کا کہنا تھا کہ نیویارک سٹی میں معیشت کی بحالی صحت کے حوالے سے چیلنجوں کے خاتمے کے بغیر ممکن نہیں ۔ ہمیں کرونا وبا کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ بھرپور توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔اس امر کو یقینی بنانا ہو گا کہ نیویارک میں ہر ایک کو ویکسین حاصل ہو ۔ہم مسلم سمیت ہر کمیونٹی کے ساتھ مل کر کام کریں گے ۔صحت کی بحالی کے ساتھ ہی معیشت بحال ہو گی اور سیاحت دوبارہ بحال ہو گی ۔
ایرک ایڈمز اور شان ڈانووان دونوں کا کہنا تھا کہ نیویارکرز کے لئے کورونا ویکسین کے ”فئیر شئیر“ کو یقینی بنانا ہوگا۔
’اپنا کمیونٹی سنٹر ‘ کے پرویز صدیقی کے ایک سوال کے جواب میں ایرک ایڈمز نے کہا کہ کمیونٹی کی نمائنڈہ تنظیمیں ، نیویارک سٹی کےلئے ایک اثاثہ ہیں ۔ ہمیں ان تنظیموں کے بھرپور کردار کو یقینی بناتے ہوئے نیویارکرز کے مسائل کے حل کو یقینی بنانا ہوگا۔
افورڈیبل ہاو¿سنگ کے بارے ایک سوال کے جواب میں شان ڈانووان کا کہنا تھا کہ کانگریس نے ’رینٹل اسسٹنس‘ کی مد میں 50ارب ڈالرز کے فنڈز کی منظوری دی ہے ۔ اگر ہم ان فنڈز کا صحیح اور موثر استعمال کریں تو مسائل میں کمی کو یقینی بنا سکتے ہیں ، لوگوں کو بے گھر ہونے سے بچا سکتے ہیں ۔کانگریس کو بے دخلی کے سلسلے میں رعائیت کے اقدام میں توسیع کرنی چاہئیے ۔ ہمیں فیڈرل فنڈنگ کے ذریعے مزید افورڈ ایبل ہاو¿سنگ کے منصوبوں کو پائیہ تکمیل تک پہنچانا ہوگا۔نیویارک سٹی میں اٹلانٹا (جارجیا) کے لوگوں سے زیادہ نیویارکرز ، پبلک ہاو¿سنگ میں رہتے ہیں ۔
ایرک ایڈمز نے کہا کہ مجھے بچپن سے ہی ہاو¿سنگ کے تجربے کا سامنا رہا ۔ ہمیں ایس آر او قوانین کو تبدیل کرنا ہوگا،ہمیں بیسمنٹ اپارٹمنٹ کو لیگل کرنے کے لئے مناسب اقدام کرنے ہونگے اور زوننگ میں تبدیلیاں کرنا ہوں گی ۔ہمیں شارٹ اور لانگ ٹرم دونوں پلانز پر عمل کرنا ہوگا۔
امتیاز سلوک اور اسلامو فوبیا اور نفرت انگیز جرائم کے بارے ایک سوال کے جواب میں شا ن ڈانووان نے کہا کہ میں قوانین کے اطلاق کو یقینی بنانا ہوگا، قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کو قابل احتساب بنانا ہوگا او اس معاملے میں کسی بھی قسم کی لچک کا مظاہرہ نہیں کرنا ہوگا۔ہمیں ایسے مئیر کی بھی ضرورت ہے کہ جو کمیونٹیز کے درمیان ”پل“ تعمیر کرے اور ان میں باہمی افہام و تفہیم پیدا کرے ۔
اسی سوال کے جواب میں ایرک ایڈمز کا کہنا تھا کہ ہر اہم مسلہ کو شارٹ ٹرم، مڈ ٹرم اور لانگ ٹرم بنیادوں پر ڈیل کرنا چاہئیے ۔ کسی بھی حملے یا قانون کی خلاف ورزی میں ملوث شخص کے خلاف قانون کو بلا تاخیر حرکت میں آنا چاہئیے ۔ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو نفرت انگیز جرائم اور سرگرمیوں میں ملوث گروپوں اور افراد کی نشاندہی کرنا ہوگی۔میں مزید کہوں گا کہ ہمیں کمیونٹیز میں باہمی افہام و تفہیم کو بھی فروغ دینا ہوگی ۔جتنا ایک دوسرے کو سمجھیں گے اتنا ہی ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیاں دور ہوں گی۔
کریمنل جسٹس سسٹم کے بارے ایک سوال کے جواب میں ایرک ایڈمز نے کہا کہ میں نے پولیس ڈیپارٹمنٹ کا ایک مقصد کے تحت جوائن کیا ۔کمیونٹیز اور پولیس ڈیپارٹمنٹ میں تعلقات اور ان تعلقات کے تقاضوں کے لئے میں ایک عرصے سے آواز بلند کررہا ہوں ۔ میں سٹاپ ایںڈ فرسک کے مسلہ پر آواز بلند کی ، عملی کردار اداکیا،اسلاما فوبیا کے خلاف کھل کر بیان دیا،اس مسلہ پر میری ایڈوکیسی گذشتہ تیس سال سے محیط ہے ۔مسلم کمیونٹی کے ساتھ امتیازی سلوک کے حوالے سے جو سلوک ہوا ، ہم اس کی دوبارہ کبھی اجازت نہیں دیں گے ۔
ڈان شانووان کا کہنا تھا کہ مئیر بلوم برگ دور میں ، میں ہاو¿سنگ کمشنر تھا۔ مسلم دینی مقامات کی جاسوسی کے بارے خود مئیر بلوم برگ نے معذرت کی اور مانا کہ وہ اقدام درست نہیں تھا۔میں نے ہمیشہ قانون کی بالادستی کے حق میں اور امتیازی سلوک کے خلاف بات کی ۔
نیویارک سٹی میں پبلک سکولز میں سٹوڈنٹس کے لئے حلال کھانوں کے بارے ایک سوال کے جواب میںایرک ایڈمز نے کہا کہ لوگ مذاق میں مجھے ”فوڈ والا بندہ “ کہتے ہیں ۔حلال فوڈ ، بھی اچھا فوڈ ہے ۔ میں سکولز میں حلال فوڈ کے حق میں ہوں ۔میں یہاں تک کہوںگا کہ سکولوں میں بچوں کے لئے اپنی عبادت کے لئے الگ کمرہ تک مخصوص ہونا چاہئیے ۔
شان ڈانو وان کا کہنا تھا کہ میں بھی سو فیصد حلال فوڈ کے حق میں ہوں ۔ہمیں نہ صرف معیاری کھانے بلکہ لوگوں کے کلچر کے مطابق کھانے کی دستیابی کو یقینی بنانا چاہئیے ۔
ایک سوال کے جواب میں ایرک ایڈمز نے کہا کہ ہر ایک کو احتجاج اور اظہار رائے کا حق ہے تاہم کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہئیے۔ شان ڈانووان نے کہا کہ آزادی اظہار ، امریکی عوام کا بنیادی حق ہے ، میں اس حق کے سو فیصد حق میں ہوں ۔ دونوں امیدواروں کا کہنا تھا کہ آزادی اظہار کے نام پر کسی کے عقید ے اور مذہب کو نشانہ نہیں بنانا چاہئیے ۔
مسلم کمیونٹیز نیٹ ورک (ایم سی این ) کی انیقہ نوابی نے ایرک ایڈمز اور شان ڈانووان اور مئیرل فورم کے انعقاد میں کردار ادا کرنے والی مسلم تنظیموں کے تعاون کا شکرئیہ ادا کیا ۔ انہوں نے اعلان کیا کہ مسلم کمیونٹی کے زیر اہتمام ریپبلکن امیدواروں اور آزاد امیدواروں کے ساتھ بھی خصوصی مئیرل فورم منعقد کیا جائے گا۔
”ایم گیج “ (Emgage)سینئر ایڈوائزر ڈیبی المنتصر نے فورم کے دوسرے سیشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کو فورم میں خوش آمدید کہا۔انہوں نے ایشین امریکن پیسیفک آئی لینڈر کمیونٹیز کے ساتھ پیش آنے والے حالیہ نفرت انگیز جرائم کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کمیونٹی سے اظہار یکجہتی کیا ۔انہوں نے کہا کہ مئیر نیویارک کے گذشتہ الیکشن سال 2017میں ساڑھے 4لاکھ ووٹرز نے مئیر کے الیکشن میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ، ہم سمجھتے ہیں کہ نیویارک سٹی میں بسنے والے ساڑھے 3لاکھ مسلم رجسٹرڈ ووٹرز رواں سال میں ہونے والے مئیر الیکشن میں فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں ، آئی ایس پی یو ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں مسلم کمیونٹی کی آبادی کا 22فیصد نیویارک میں بستے ہیں ۔
اینڈریو یانگ کا کہنا تھا کہ نیویارک سٹی ایک بحران سے گذررہی ہے اور سوال یہ ہے کہ ہم اس بحران سے کیسے نکلیں گے ؟ہم چھ لاکھ روز گار کے مواقع اور ہزاروں سمال بزنسز سے محروم ہوئے ہیں، 60ملین سیاحوں نے نیویارک کا رخ نہیں کیا ،82فیصد کمیونٹیز کی کمی واقع ہوئی ہے ، سب وے کے مسافروں میں 70فیصد کمی ہوئی ہے ۔ شہرمیں وائلنس (تشدد) کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے ، ایشین کے خلاف تشدد کے واقعات کی ایک نئی لہر آئی ہے ۔ ان حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون معیشت کی بحالی اور وسائل کے صحیح اور بھرپور استعمال کویقینی بنائے گا؟میرا یہ ماننا ہے کہ کسی بھی مئیرل امیدوار کی نسبت میں نیویارک سٹی کی ریکوری کو سب سے زیادہ تیزی سے یقینی بنا سکتا ہوں ، میرے واشنگٹن میں موثر تعلقات ہیں اور صرف پبلک ہی نہیں بلکہ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی گہرے تعلقات ہیں ۔
رے میکگوائر کا کہنا تھا میں نہیں اوہائیو میں پلا بڑھا جہاں میری سنگل والدہ نے میری پرورش کی ۔مجھے اپنے والد کا پتہ نہیں ، اپنی والدہ کی قربانیوںکی وجہ سے میں نے تعلیم حاصل کی ، ہارورڈ کالج گیا اور لاءسکول میں تعلیم حاصل کی ۔میں نیویارک سٹی میںآیا تو میرے پاس کوئی پیسے نہیں تھے ۔مجھے نیویارک سٹی سے بہت محبت ہے ، یہ ایک عظیم شہر ہے لیکن اسے معیشت ، نفرت انگیز جرائم ، ماحولیات سمیت متعدد چیلنجز درپیش ہیں ۔مجھے بہت سے ریاستوں کے بجٹ سے بڑے بڑے بجٹ کا انتظام چالانے کا تجربہ ہے ، میں نے بحرانوں کا سامنا کیا ہے ، ہر ایک ساتھ لے کر چلنے کی قائدانہ صلاحیتیں رکھتا ہوں ۔
میرے پاس نیویارک سٹی کی معاشی بحال کی بصیرت موجود ہے ، میں نے کسی انتظامیہ میں کام نہیں کیا ، میں کسی عہدے کے لئے ٹرم آو¿ٹ نہیں ہو رہا اور نہ ہی میں الیکشن کسی پروموشن کے لئے لڑرہا ہوں ۔نیویارک سٹی کی بحالی کے لئے میرے پاس جو پلان ہے ، اس میں مسلم امریکن کمیونٹی کی بحالی بھی شامل ہے ۔
ہمیں نیویارک سٹی کو لے کر آگے بڑھنا ہے او ر اس موقع پر تجربے کی بہت اہمیت ہے جو کہ میرے پاس ہے ۔مجھے سٹیٹ اسمبلی مین کے طور پر البنی ، بورو پریذیڈنٹ اور کمپٹرولر کی حیثیت سے سٹی میں کام کرنے کے مواقع حاصل ہوئے ۔ میرے پاس وسیع تجربہ ہے ۔چیف فنانشل آفیسر کی حیثیت سے میں نے نیویارک سٹی کا 240بلین ڈالر کا پنشن فنڈ مینیج کیا ہے جو کہ امریکہ کا ہی نہیں بلکہ دنیا کا ایک بڑا فنڈ ہے ۔نیویارک سٹی میں جسٹس کو یقینی بنانے کے لئے میں ہر اہم موقع پر فرنٹ لائن پر موجود رہا ہوں ۔میں ٹیکسی اینڈ میڈلالین ڈیٹ ریلیف کے پلان پر کام کیا ، امیگرنٹس کے ووٹنگ رائٹس کے حق میں آواز بلند کی ، سفری پابندیوں کے خلاف کھڑا ہوا اور نفرت اور تعصب کی ہر سطح پر مخالفت کی ۔ہمیں ایک ”انڈر ٹریننگ “ مئیر کی ضرورت نہیں ۔مسلم کمیونٹی کی میرے نزدیک بہت اہمیت ہے ۔
ایک سوال کے جواب میں سکاٹ سٹنگر کا کہنا تھا کہ میرے سمال بزنس پلان میں واضح کیا گیا ہے کہ ہم سمال بزنس کو کیسے سپورٹ کر سکتے ہیں ۔کوورنا وبا کے دوران وال سٹریٹ کو بے تحاشہ ملا، ٹرمپ کے سٹیمو لس پیکج میں امیروں کا بہت خیال رکھا گیا ، چھوٹے بزنس میں اور لوگوں کو ان کا جائز حصہ نہیں ملا ۔ کورونا وبا کے دوران ہم ایسے سمال بزنس کہ جن کے 50یا اس سے کم ملازمین تھے ، سے محروم ہو گئے ،ریٹیل سٹور جن کو بڑی تعداد میں مسلم کمیونٹی بھی چلا رہی ہے ، کو شدید معاشی مشکلات درپیش ہیں ، ہمیں ایسے بزنس کو ٹیکس بریک دینا ہوگی اور نئے کاروبار وں کو ترغیبات دینا ہوں گی، جو لوگ روزگار سے محروم ہو گئے ہیں ، ان کے لئے ورک فورس ٹریننگ کا اہتمام کرنا ہوگا، CUNYکالج ، دو سال کے لئے فری کرنا ہوگا۔
رے میکگوائر کا کہنا تھا کہ مجھے زندگی میں کم وسائل سے زندگی گذارنے کا تجربہ حاصل ہوا۔ جب ہم ان لوگوں کی بات کرتے ہیں کہ جن پر سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے تو میرے بچپن کا اس سے گہرا تعلق ہے ۔لہٰذا میں نیویارکرز سے کہوں گا کہ ان کے مسائل کو اگر کوئی بخوبی جان سکتا ہے اور ان مسائل کا احساس رکھ سکتا ہے تو وہ میں ہوں ۔
نیویارک سٹی میں فوڈ پینٹریز پر انحصار کرنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ سمیت نئے چیلنجوں کے بارے ایک سوال کے جواب میں اینڈریو یانگ نے کہا کہ سب سے پہلی بات یہ کہ میں میڈالین مالکان کو بڑی رعائیت دینے کے حق میں اور پلان رکھتا ہوں ۔ہمیں اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ بزنس کامیاب ہوں ، ان کی کامیابی سے لینڈلارڈز کو بھی ریلیف ملے گا۔میں غربت کے خاتمے والا مئیر بننا چاہتا ہوں ، ہمارے پاس سٹریٹیجی ہونی چاہئیے کہ لوگوں کی زندگی کو کیسے آسودہ بنائیں ،بے گھر مسلہ کا حل چاہتا ہوں ، کمیونٹی کی ترقی کے لئے مالیاتی اداروں کے کردار کا حامی ہوں ، جو پیچھے رہ گئے ہیں ، ان کی مدد کرنا ہوگی ۔میں سمجھتا ہوں کہ فوڈ پینٹری میں لوگوں کو ان کی پسند کی اشیائے خوردو نوش ملنی چاہئیے اورقطار میں طویل انتظار نہیں کرنا چاہئیے ۔
افورڈ ایبل ہاو¿سنگ کے بارے ایک سوال کے جواب میں سکاٹ سٹنگر نے کہا کہ ہاو¿سنگ کے حوالے سے ہمیں جو چیلنجز درپیش ہیں، ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں نے افورڈایبل ہاو¿سنگ یونٹ کا پلان مرتب کیا ہے ۔صورتحال یہ ہے کہ نیویارک میں پانچ لاکھ افراد کو بے گھر ہونے کے خطرات لاحق ہیں ، 60ہزار لوگ جن میں آدھے بچے ہیں ، وہ ہوم لیس شیلٹرز میں زندگی بسر کررہے ہیں ۔ اس صورتحال میں میرا ہاو¿سنگ پلان مسائل میں خاطر خواہ کمی کو یقینی بنائے گا۔
رے میکگوائر نے افورڈ ایبل ہاو¿سنگ کے بارے بات کرتے ہوئے کہا کہ نیویارک میں 43سے45نیویارکرز کرائے کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ۔وہ اپنی آمدن ایک بڑا حصہ کرائے میں ادا کر دیتے ہیں ۔ہمیں صحیح معنوں میں افورڈیبل ہاو¿سنگ کی ضرورت ہے جو کہ ہاو¿سنگ کے مسائل کے خاتمے میں موثر ثابت ہو۔ایسے لوگ کہ جو 30سے 40ہزار ڈالرز سالانہ کماتے ہیں، کےلئے افورڈیبل ہاو¿سنگ کو یقینی بنانا ہوگا، ہمیں ’ایسینشل ورکرز ‘کی گھروں کی ضروریات کو پورا کرنا ہوگا کیونکہ یہ وہ ورکرز ہیں کہ جو ہر حال میں نیویارک سٹی کو رواں دواں رکھتے ہیں۔ہمیں افورڈ ایبل ہاو¿سنگ سے ہوم اوونر شپ پروگرامز کی طرف جانا ہوگا۔
اینڈریو یانگ کا کہنا تھا کہ آج نیویارک میں 80فیصد ہوٹل رومز خالی پڑے ہیں ، مڈ ٹاو¿ن اور ٹائمز سکوائر میں 82فیصد کمرشل رئیل اسٹیٹ ، خالی پڑی ہے اور ان حالات میں میرے مئیر کے ساتھی امیدوار نئی رئیل اسٹیٹ کی بات کررہے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ خالی ہوٹلز کو افورڈیبل یونٹس میں تبدیل کرنا چاہئیے ، یہ کام ہم آدھی لاگت سے مکمل کر سکتے ہیں ۔لہٰذا میں کہوں کہ موجودہ سٹرکچرز کو استعمال کرتے ہوئے افورڈایبل ہاو¿سنگ کی ضروریات کو پورا کرنا چاہیے نہ کہ نئی کنسٹرکشن کی جائے ۔
سکاٹ سٹنگر نے کہا کہ ہمارے پاس ہزاروں ایکٹر اراضی موجود ہے جو کہ ہم کمیونٹی بیس تنظیموں کو دے کر ان سے کام لے سکتے ہیں ۔اینڈریو نے ہوٹلز کو افورڈ ایبل ہاو¿سنگ میں تبدیل کرنے کی بات کی ، میں سمجھتاہوں کہ بیشتر ہوٹلز کی معیشت اور کاروبار بحال ہو جائے گا۔چند ایک ہوٹلز کو استعمال کرنے سے افورڈ ایبل ہاو¿سنگ کے مسلہ میں کوئی بڑا فرق نہیں پڑے گا۔
سلامو فوبیا ، نفرت انگیز جرائم کے بارے اس سوال کہ ایسے پرتشدد واقعات کو رونما ہونے سے پہلے کیسے روکا جا سکتا ہے ، کے جواب میں اینڈریو یانگ کا کہنا تھا کہ مجھے یاد ہے کہ 2000کے اوائل میں ، میں ایک مسلم دوست فہد احمد کے ساتھ مل کر کام کررہا تھا۔ وہ ذاتی دورے پر اپنے آبائی ملک گیا اور اس کی واپسی میں تاخیر ہو گئی ۔ واپسی پر اسے ائیرپورٹ پر روک لیا گیا اور اس نے کہا کہ محض مسلمان کی وجہ سے اسے مشی گن ائیرپورٹ پر روک لیا گیا، ایک دن کے لئے تحویل میں لے لیا گیا ۔اس واقعہ سے مجھے شاک پہنچا ۔ آج ہمیں ایشین نفرت انگیز جرائم کی صورتحال کا سامنا ہے ۔میں ایشین امریکن کی حیثیت سے اس ملک میں بڑھا ہوا ہوں ۔ان حالات میں ہم سب کو مل کر بیٹھ جانا چاہئیے ، نیویارک سٹی کی ڈائیورسٹی کا فائدہ اٹھانا چاہئیے ، ایک دوسرے کو سمجھنا چاہئیے اور افہام و تفہیم اور مل کر کام کرنے کے کلچر کو فروغ دینا چاہئیے ۔ایک دوسرے کے کلچر اور زبانوں سے دوسروں کو متعارف کروانا چاہئیے ۔
رے میکگوائر نے کہا کہ مسلم ، سکھ ، جیوئش اور حال ہی میں ایشین امریکن کمیونٹی میں نفرت انگیز جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات باعث تشویش ہیں ۔اس اہم مرحلے میں ہم سب کو یکجا اور متحد ہو کر کھڑا ہونا چاہئیے ، سب سے پہلے نفرت کے خلاف بات کرنی چاہئیے ، اس کے خلاف کھڑا ہونا چاہئیے ، قانون کے نفاذ کو یقینی بنانا چاہئیے اور وسائل مختص کرنے چاہئیے ۔ تعصب اور نفرت کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنی چاہئیے ۔
سکاٹ سٹنگر کا کہنا تھا کہ نفرت اور تشدد کے خلاف ہم سب کو ایک ہو کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ کسی بھی ایک کمیونٹی کو اگر کوئی نشانہ بنائے تو ہم سب کو فوری آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہئیے ۔میں مسلم اور پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ ملکر کام کروں گا کہ ان کی سیکورٹی کو یقینی بنایا جا سکے ۔ہمیں تخلیقی اقدام لیتے ہوئے اور کمیونٹی کے کردار کو شامل کرتے ہوئے ، مذکورہ مسلہ کے حل کو یقینی بنانا چاہئیے ۔
کیتھرائن گارسیا نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے سکولوں میں ایسے نصاب کی ضرورت ہے کہ جو کہ متفقہ ہو اور سب کے کلچر اور ہسٹری کے بارے میں پڑھایا جائے ۔امریکہ میں ایشین امریکن نئے نہیں ہیں ، وہ شروع دن سے امریکہ میں ہیں ، یہی صورتحال مسلم اور جیوئش کمیونٹیز کے بارے میں ہے ۔ہمیں اپنے بچوں کو ہر ایک کی تاریخ بتانی چاہئیے ۔ نفرت نہیں ایک دوسرے سے محبت کے فروغ کے کلچر اور آگاہی کے عمل کو فروغ دینا ہے ۔
کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات کے بارے ایک سوال کے جواب میں رے میکگوائر نے کہا کہ میں سجھتا ہوں کہ ہمارے متعدد اداروں میں system racsim موجود ہے ۔اس معاملے کو واشنگٹن میں موجود ایک قیادت نے وائٹ supermacyکی بات کرکے فروغ دیا۔ میرا سیفٹی اینڈ جسٹس پلان ہر ایک کو قابل احتساب بنائے گا۔
سکاٹ سٹنگر کا کہنا تھا کہ ہمیں systematic racismکے مسلہ سے نبرد آزما ہونا ہوگا۔عملی اقدام کرنے ہوں گے ۔میں نے شروع دن سے سٹاپ اینڈ فرسک کے خلاف بات کرناشروع کی ۔میں سب کے شانہ بشانہ مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہوں ۔ ہمیں اپنے ڈرگ لاز کے حوالے سے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے ۔اگر میں مئیر منتخب ہو گیا تو پولیسنگ کے نظام میں بنیادی تبدیلیاں لاو¿نگا۔اس معاملے میں نیویارک سٹی کو قائدانہ کردار ادا کرناچاہئیے ۔
کیتھرائن گارسیا نے امتیازی سلوک کے بارے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پولیس ، کمیونٹی کی گارڈئین ہوتی ہے ۔ کسی بھی قسم کا امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہئیے ۔قطع نظر آپ کس رنگ و نسل سے ہیں ، ہر ایک کو اپنی جان و مال کے تحفظ کا واضح احساس ہونا چاہئیے ۔شوٹنگ کے متعدد واقعات ہو رہے ہیں جو کہ باعث تشویش ہے ۔ سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لئے ہر ممکن اقدام کرنے ہوں گے ۔صرف گرفتاریوں کو شمار کرکے
کارکردگی کا جائز ہ نہیں لے سکتے بلکہ دیکھنا یہ ہوگا کہ زمینی حقائق کیا ہیں اور صورتحال میں کتنی بہتری ہوئی ہے !
نیویارک سٹی کے پبلک سکولز میں حلال کھانوں کے بارے سوال کے جواب میں اینڈریو یانگ ، رے میکگوائر، سکاٹ سٹنگر، کیتھرائس گارسیا ، چاروں مئیر کے امیدواروں نے حلال فوڈ کے حق میں بات کرتے ہوئے کہا کہ سکولوں میں زیر تعلیم بچوں کے لئے ان کی پسند اور کلچر کے مطابق فوڈ کی دستیابی بہت اہم ہے اور مئیر منتخب ہونے کی صورت میں وہ اس کو یقینی بنائیں گے ۔

 

Related Articles

Back to top button