کالم و مضامینبین الاقوامی

عمران خان ، نواز شریف اور پاکستان کی سیاسی صورتحال

مقبولیت کو سازشوں سے نہیں روکا جا سکتا جمہوری نظام میں روکنے کی ایسی کوششیں کامیاب نہیں ہوتی ہے اس کی مثال جاپان کے حالیہ انتخابات ہے

خصوصی مضمون ۔۔۔۔ محمد مہدی (لاہور )

تازہ تازہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج سامنے آئے تھے اور مولانا فضل الرحمن کی وہاں کامیابی زیر بحث تھی ایک دوست بولا مہدی صاحب نے تو 14 نومبر 2019 کو اپنے کالم کا عنوان ہی” مولانا فضل الرحمن کامیاب ہوگئے ” رکھا تھا اور وہ اب کامیاب بھی ہو گئے۔ میں بولا وہ صرف اب کامیاب نہیں ہوئے بلکہ اس وقت بھی کامیاب ہی تھے سیاسی کامیابی مارشل لا کی مانند نہیں ہوتی کہ وہ عوام کے سامنے یہ یکدم آجائے اور اس کی تیاریاں بس ایک راز ہی ہو بلکہ وہ تو مستقل کامیاب حکمت عملی اور کامیابیوں کے تسلسل کے ذریعے کامیاب ہوتی ہے ۔ انہوں نے اپنا مذہبی تشخص ایک حقیقت پسند اور معاملہ فہم شخص کا آزادی مارچ کی صورت میں قائم کیا تھا یہی کامیابی تھی اور حتمی کامیابی کی طرف بڑھنے کا راستہ بھی یہی تھا۔
ایم ایم اے کے قیام سے لیکر پی ڈی ایم کے سربراہ بن نے تک انہوں نے نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کی جگہ لے لی ہے کہ وہ سب کے لیے قابل قبول ہے۔اپنے حلقہ اثر پختون مذہبی افراد کا پرامن تشخص قائم کرنا، دیگر سیاسی جماعتوں سے مل کر آگے بڑھنا اور اپنے موقف پر واضح طور پر قائم رہنا ایسے اقدامات ہیں کہ جنہوں نے ان کو عوام میں مزید مقبول کر دیا، نواز شریف کی بھی یہی کیفیت ہے۔ وہ نتائج کی پرواہ کیے بنا اپنے موقف پر ڈٹ گئے وزارت عظمی گئی ، بھائی بیٹے بھتیجے سمیت جیل گئے ، بیماری سے لڑے جلاوطن ہے مگر اپنے موقف میں رتی برابر تبدیلی نہیں لائے۔ عوام میں بہادری کی ہمیشہ قدر ہوتی ہے لہذا مزید مقبول ہی چلے جا رہے ہیں اور اگلے انتخابات جب کبھی بھی ہوئے تو اس میں دو ہزار اٹھارہ والا کھیل دوہرانے کے لیے اس وقت سے بھی کئی گنا زیادہ طاقت استعمال کرنی ہوگی کہ نواز شریف کا راستہ روک سکے ۔ پہ در پہ ضمنی انتخابات کے نتائج اس بات کے گواہ ہے کہ اگلا نتیجہ کیا برآمد ہوگا۔
یہ خبریں گردش کر رہی ہے کہ کسی جگہ پر بیٹھ کر یہ منصوبہ بندی کی جارہی ہے کہ نواز شریف کا راستہ روکنے کے لئے پی ٹی آئی کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ خانیوال کے انتخاب میں آنے والی تیسرے اور چوتھے نمبر پر آنے والی جماعتوں کے ساتھ کروا دیا جائے تو نواز شریف کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔ ایک دوست بولا ایسا ہوا تو کیا ہوگا ؟ مقبولیت کو سازشوں سے نہیں روکا جا سکتا جمہوری نظام میں روکنے کی ایسی کوششیں کامیاب نہیں ہوتی ہے اس کی مثال جاپان کے حالیہ انتخابات ہے۔ وہاں پر حکمران ایل ڈی پی کو کرونا کی وجہ سے زبردست مسائل کا سامنا تھا انتخابات کا اعلان ہوا تو ایل ڈی پی کو دوبارہ اقتدار میں آنے سے روکنے کی غرض سے حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت سی ڈی پی متحرک ہوگئی۔ اپنے خیال کے مطابق دو سو سترہ ایسے حلقے کی تلاش کیے جہاں اتحادی سیاست کرکے کامیابی حاصل کی جاسکتی تھی۔ دیگر پانچ سیاسی جماعتوں سے اتحاد کیا جس میں کمیونسٹ پارٹی بھی شامل تھی یعنی زبردست نظریاتی فرق کے باوجود ایل ڈی پی کو ہرانے کے لیےیک جان ہوگئے۔ اور دعوی کرنے لگے کہ ماضی کی نسبت کم ازکم 40 فیصد سے زیادہ نشستیں حاصل کرلیں گے۔ 217 نشستوں پر مشترکہ امیدوار دیا کہ ووٹ نہ تقسیم ہو مگر انتخابات کا نتیجہ یہ نکلا کہ 465 کے ا?وان میں صرف چھیانوے نشستیں حاصل کر سکے۔
حالا نکہ گذشتہ انتخابات میں 110 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ ایل ڈی پی اپنی ساتھی جماعت سمیت 293 نشستیں حاصل کر گئی کیونکہ مقبولیت ایسے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے مقابلہ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے جاپان میں 217 نشستوں پر اتحاد ،سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے جو حاصل ہوا وہی یہاں پر تحریک انصاف اور دیگر دو جماعتوں کے اتحاد سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے حاصل ہوگا اپنی نشستیں بھی بچا نہیں سکیں گے۔ کیونکہ عوام ووٹ کا استعمال اپنے مسائل کے حل کے لیے کرتے ہیں انکو بد زبانی یا چھچھورے پن سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا ہے
معاشی حالات اس وقت جو ہو چکے ہیں اس کے اثرات سے عوام پوری طرح سے متاثر ہے اور یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ نواز شریف نے اپنا سیاسی قد کاٹھ اسی سبب سے قائم کیا کہ ان کے پاس معیشت کو چلانے کی صلاحیت دیگر سیاسی جماعتوں بلکہ اداروں کے چنتخب افراد سے بھی زیادہ ہے اور موجودہ حکومت کی معاشی کارکردگی نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ عوام کی رائے بھی درست ہے جو وہ بار بار کے ضمنی انتخابات میں دے رہے ہیں کہ مسائل کا حل موجودہ حکومت کے پاس نہیں ہے۔ اور یہ پوری دنیا کا چلن ہے۔ حال ہی میں جرمنی کے منتخب چانسلر اولف شلز جن کے چانسلر بننے کی پیشن گوئی میں ان ہی کالموں میں کی تھی کی مقبولیت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ بطور وزیر خزانہ بہت کامیاب تصور کیے جاتے تھے اپنی کامیاب وزارت خزانہ کے تجربے کے پیش نظر ہی جرمنی کی عوام نے حکومت میں ان کے آنے کو ایک معاشی بہتری کے طور پر منتخب کیا ہے پاکستانی عوام کے سامنے بھی اس وقت یہی سوال موجود ہے کہ وہ کب تک دن بدن گرتی معیشت کو برداشت کریں گے اور حقیقت یہ ہے کہ اب قوت برداشت جواب دے گئی ہے

Related Articles

Back to top button