کالم و مضامینبین الاقوامی

نئی نیشنل جینڈر پالیسی فریم ورک  کا نفاذ: مستقبل کے پاکستان کی ضرورت

فرینک ایف اسلام  

خواتین کے عالمی دن کے موقع پر 8مارچ کو پاکستان نے اپنی نئی قومی صنفی پالیسی (نیشنل جینڈر پالیسی) کا اعلان کیاہے۔ اس پروگرام کا نفاذ پاکستان کے لئے اس لحاظ سے اہم ہے کہ انٹرنیشنل جینڈر پالیسی کے مقابلہ میں پاکستان میں اس اہم اورنازک مسئلہ پر نہ صرف توجہ نہیں دی گئی بلکہ اس ملک کی کارکردگی صنفی تضادات کے حوالہ سے انتہائی مایوس کن ہونے کی وجہ سے پاکستان کو سالانہ 500بلین ڈالر کا نقصان بھی اٹھاناپڑ رہاہے اور کہ رقم اس کے جی ڈی پی کو 30فیصدتک اوپر لے جاسکتی ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی جاری کردہ گلوبل جینڈر گیپ  کی سالانہ رپورٹ میں پاکستان کی کارکردگی انتہائی ناقص ظاہر کی گئی ہے اورجینڈر کی عدم مساوات کے انڈیکس میں پاکستان کو 160ممالک میں سے 133 نمبر پر رکھاگیاہے۔ یہ رپورٹ جینڈرز کی صحت، اختیار اورمعاشی عدم مساوات کو اجاگر کرتی ہے۔

اس رپورٹ کے انڈیکس جس میں  جینڈرز کی معاشی عدم مساوات، تعلیمی  و صحت کی سہولیات اورسیاسی اختیارات کا احاطہ کیا جاتاہے ، میں پاکستان کو 153 ممالک میں 151ویں نمبر پر رکھاگیاہے  جبکہ خواتین کے حکومتی معاملات میں اختیارات، کارپوریٹ سیکٹر ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اورانٹرپرینئیورشپ میں کردار کے حوالہ سے پاکستان کا نمبرآخری ہے۔ خواتین کی حفاظت اورسلامتی کے حوالہ سے بھی پاکستان میں حالات سازگار نہیں بتائے گئے اور سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) کی حالیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیاہے کہ سال 2021میں خواتین پر تشدد کے 27273واقعات اس ملک میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ان سنگین حالات و اعداد وشمار کے پیش نظر پاکستان کی نیشنل جینڈر پالیسی فریم ورک (این جی پی ایف)  انتہائی اہمیت کا حامل پروگرام قراردیا جاسکتاہے جس پر عملدرآمد کرکے ملک میں ہر قسم کے صنفی عدم مساوات اورامتیازی سلوک میں کمی اوربالآخر اس کے خاتمہ کیلئے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ 

صنفی عدم مساوات کے اس اہم مسئلہ پر خواتین کی شرکت اورانہیں بااختیار بناکر پاکستانی معاشرہ دیرپا ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہوسکتاہے۔  پاکستان کی نیشنل جینڈر پالیسی 6 بنیادی نقاط پر مشتمل ہے جن میں خواتین کی  گورننس، مساوات اور بالخصوص تعلیمی مساوات، روزگار اور معاشی خود مختاری، سیاسی عمل میں بامقصد شمولیت، حفاظت اورسلامتی اورصحت کی مساویانہ سہولیات کی فراہمی شامل ہیں۔

خواتین کو بااختیاربنانے کے عمل میں جینڈر پالیسی کی سفارشات میں خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے گورننس سٹرکچر میں بہتری لانے، اداروں میں عدم مساوات کے خاتمہ، حکومتی سطح پر مساوات قائم کرنے کے اصول طے کرکے اس کیلئے پالیسی بنانا اوران پر عملدرآمد کو یقینی بنانا شامل ہے جس میں حکومتی ترجیحات اور ایکشن پلان کی تشکیل ممکن بنائی جاسکے۔  شعبہ تعلیم میں خواتین کیلئے ایسے ماحول کی فراہمی یقینی بنانا شامل ہے جس میں انہیں روزگار کیلئے ہنر اورآمدنی کے بہتر ذرائع حاصل کرنے کیلئے مواقع اوربہتر کونسلنگ فراہم کی جاسکے۔ معاشی خودمختاری کیلئے  نیشنل جینڈر پالیسی فریم ورک میں خواتین کو کام کے بہتر مواقع تک آسان رسائی ، کام کے بہترین ماحول کے ساتھ ساتھ ضروری بنیادی ہنر مندی سکھانے کے ٹارگٹ رکھے گئے ہیں۔ سیاسی عمل میں شمولیت اوروابستگی  کے حوالہ سے اس پالیسی میں خواتین لیڈر شپ کیلئے کام کرنا، خواتین کی آواز کو بامقصد اورموثر بنانے کیلئے انکی سیاسی تربیت کے ساتھ ساتھ خواتین ووٹرز کے اندراج پر توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔خواتین کی حفاظت اورسلامتی کے حوالہ سے اس پالیسی فریم ورک میں خواتین کو کام کے لئے بہترین اورمساویانہ ماحول کی فراہمی، خواتین کی حفاظت ، سلامتی اورعدم مساوات کے حوالہ سے آگاہی مہم ، معاشرہ کے پسماندہ طبقات کی خواتین کی انصاف تک رسائی  اورانہیں  انصاف کی فراہمی کیلئے اداروں اورقانون نافذ کرنے والے محکموں کو فعال بناکر ہراسمنٹ اورسائبر کرائم کو کنٹرول کرنا شامل ہے۔ نیشنل جینڈر پالیسی فریم ورک میں خواتین کی صحت کی سہولیات کو بھی ترجیح دی گئی ہے جس کے تحت صحت اوربالخصوص تولیدی صحت سے آگاہی کو تعلیمی نظام کا حصہ بنانا، خواتین کے ذہنی اورنفسیاتی صحت کی حفاظت  اورصنفی مساوات پر مبنی صحت پالیسی کی ترویج کے علاوہ تعلیمی اداروں اورمارکیٹوں میں خواتین کیلئے معیاری ہائی جینک سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا شامل ہے۔

نیشنل جینڈر پالیسی فریم ورک پاکستان پلاننگ کمیشن نے تشکیل دیا ہے اوراس کی تیاری میں مارچ سے دسمبر 2021تک ملک گیر سطح پر مختلف  ذرائع اورچینلز پر سیر حاصل بحث کی گئی تھی تاکہ قومی  جینڈر پالیسی کی بہترین ترجیحات پر فوکس کرتے ہوئے صنفی امتیاز کے خاتمہ اورپسماندہ طبقوں کی خواتین کو ترقی کے برابری کی بنیاد پر مواقع کی فراہم کو یقینی بناتے ہوئے پاکستان کی جینڈر پالیسی انڈیکس میں پوزیشن بہتر بنائی جاسکے۔بلاشبہ پاکستان پلاننگ کمیشن اوراس پالیسی فریم ورک کی تشکیل میں کام کرنے والے تمام افراد اور اداروں نے بہترین خدمات انجام دی ہیں لیکن یہ بھی  یاد رکھا جاناچاہئے کہ کوئی بھی  پالیسی یا فریم ورک کسی بھی عمارت کا ایک نقشہ ہی ہوتاہے جس میں بلاشبہ معیار ی اورشاندار کام کی اہمیت اپنی جگہ ہوتی ہےلیکن درحقیقت جو چیز سب سے اہم ہوتی ہے وہ اس نقشہ پر کس طرح عملدرآمد کرکے عمارت تعمیر  کی گئی ہے ۔ نیشنل جینڈر پالیسی فریم ورک میں  بھی یہی  نقطہ سب سے اہم ہے کہ اس پر عملدرآمد کس حد تک اورکہاں تک کیاجاتاہے یا اسے بھی کسی داخل دفتر کرکے الماریوں میں پڑی گردآلود فائلوں میں اضافہ کیاجائے گا۔ایک مشہور کہاوت ہے کہ کام کی منصوبہ بندی کریں اوراس پر کام کریں اوراب یہاں جو سب سے اہم امر یہ ہے کہ پاکستان نے ایک شاند ار کام محنت اورمنصوبہ بندی سے کرلیاہے اوراب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پلان پر کام بھی  اسی طرح کیاجائے۔ اگر پاکستان ایسا کرنے میں کامیاب ہوگیا تو یہ پاکستان کی خواتین کے ساتھ ساتھ پورے معاشرہ کیلئے سودمند ہوگا ۔ خواتین کو مساوی حیثیت دے کر نہ صرف پاکستان اپنا جی ڈی پی بہتربنالے گا بلکہ یہ پاکستانی معاشرہ کے ہر طبقہ کی بہتری کا بھی ضامن ہوگا۔

 

(Frank F. Islam is an Entrepreneur, Civic Leader, and Thought Leader based in Washington DC. The views expressed here are personal)

Related Articles

Back to top button